تاریخ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی بہار Tareekh Ashrafululoom Kanhwan Sitamarhi

www.jamiululoom.org

تاریخ اشرف العلوم کنہواں ، سیتامڑھی ، بہار،الہند

ریاستِ بہار میں ولی اللّٰہی طرزِ فکر اور دار العلوم دیوبند کے نصانِ نظامی کی روش پر قائم ہونے والی دو چند درسگاہوں میں صفِ اول کی ایک قابلِ ذکر درس گاہ ہے ۔ جس کی باضابطہ تاسیس ، یکم جماد الاخرٰی 1335ھ ، بہ مطابق 25 مارچ  1917ء   حضرت مولانا شاہ صوفی رمضان علی کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی، مقام تاسیس قصبہ کنہواں ، پریہار parihar ،ضلع : سیتامڑھی  (سابق مظفر پور Muzaffarpur )

شہر سیتامڑھی سے قصبۂ کنہواں 42 کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے  ، اس قصبہ کے شمال اور مشرق میں ملکِ نیپال ، ضلع مہوتری کاقصبہ شمسی واقع ہے جو کنہواں کے ساتھ اس طرح بولا جاتا ہے گویا کہ دونوں ایک ہی نام ہے ، حتی کہ سننے والے یہی محسوس نہیں کر پاتے کہ کنہواں اور شمسی دو الگ الگ ممالک کے الگ الگ قصبے ہیں  ۔

دینی اوردنیاوی علوم اور اصحابِ علم و فضل کی صحبتوں سے دوری اور بے تعلقی کے سبب ساف ستھرے اندازِ زندگی اور معاشرتی لطافت و نفاست سے عمومًا پوری آبادی نا آشنا تھی ، خال خال گھرانے اور اشخاص میں کچھ تعلیم پائی جاتی تھی ، جنوب میں سیتامڑھی شہر برادرِ وطن کی مذہبی جگہ اور شمال میں ” جنک پور”نیپال ان کی  تیرتھ گاہ ہے ۔ ہر دو جانب سے کفر و شرک سے ٹکرا کر چلنے والی ہواؤں کے اثرات طبائع اورنفوس پوری طرح متاثر تھے ۔ نتیجۃً حقیقی اسلام اور اسلامی تہذیب  و تمدن سے بہت حد تک محرومی تھی ، لوگ بدعات سے بڑھ کر مشرکانہ اعمال میں ملوث تھے ۔ اس علاقے میں دور دور تک کوئی عالم و حافظ نظر نہیں آتا تھا ، پوجا پاٹ اور سر پر ٹیک اور چوٹی اور گردن میں کنٹھی وغیرہ بہت سے کفریہ و شرکیہ اعمال کارِ ثواب سمجھ کر مسلمان کیا کرتے تھے۔ بود و باش میں دھوتی وغیرہ پہننا شان کی چیز سمجھی جاتی تھی ۔غرض نہ صرف کنہواں ؛ بل کہ اس کے اطراف کی بستیاں جن کو پنچ محلا کا علاقہ کہا جاتا ہے، ضلالت و گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

اسے حسنِ اتفاق کہیے یااشارۂ غیبی کہ ایک بار کسی مناسبت اور تقریب سے کنہواں کےمعزز رئیس ” واعظ الدین ” مرحوم جو مہاراج دربھنگہ کےگماشتہ اور علاقہ کے باشعور ملی غیرت رکھنے والے پنچ اور سرغنہ تھے ۔ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز ؒ سے ملاقات کے لیے مدرسہ محمود العلوم “دملہ ” مدھوبنی  گئے ، بہت دنوں سے علاقہ کی اصلاح کے لیے سخت فکر مند تھے؛لیکن ادارہ اور درس گاہ جاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ حضرت مولانا سے اس موضوع پر گفتگو اور ان کی دل نشیں تقریر قیامِ مدرسہ کی ایک شدید تحریک ثابت ہوئی جس نے ان کی ملی غیرت کو جھنجھوڑ  کر رکھ دیا ، مولانا نے گماشتہ کوایک فکر دی اور دین دار سمجھ کرتحریک کی کہ پنچ محلا کے علاقہ میں آپ ایک دینی مدرسہ قائم کریں ،چوں کہ یہ کام اس علاقہ میں نیا اور عوام کے فکر و خیال سے الگ تھا ؛ اس لیے مولانا عبد العزیزؒ نے اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے ساتھی مولانا  رمضان علی ؒ کی طرف واعظ الدین گماشتہ کی رہنمائی بھی فرما دی ۔

حضرت مولانا شاہ صوفی عبد العزیز ؒ

ضلع مظفر پور میں آبائی وطن موضع بسنت ، مولاناکی جائے پیدائش ہے ، دار العلوم دیوبند کے مایہ نازفرزند علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد تھے، مدرسہ محمود العلوم ،دملہ دربھنگہ ،میں استاذ اعلیٰ تھے ، صوفی رمضان علی ؒ کی وفات کے بعد اشرف العلوم کنہواں میں بہ حیثیت صدر المدرسین تشریف لائے ، اور مہتمم بھی رہے ۔

حضرت مولانا شاہ صوفی رمضان علیؒ اشرف العلوم کے بانی اور پہلے صدرمدرس ہیں حضرت مولانا رمضان علی کو بھی علامہ کشمیری سے شرفِ تلمذ حاصل ہے ۔

قدرت کا انمول عطیہ اور نوازش ہے کہ شمالی بہار ، ضلع سیتانڑھی میں علم و عرفان کی روشنی عام کرنے کے لیے مقام کنہواں کاانتخاب فرمایا اور اس کار ِ اہم کے لیے دو ایسی شخصیتوں کو اشر العلوم کے لیے مامور و مقرر فرمایا جو علوم ِ ظاہریہ کے ساتھ ساتھ روحانیت اور احسانی معارف سے آراستہ و بہرہ مند تھیں ، اس طرح اساسی اور تاریخی عظمت کا سرمایہ جامعہ اشرف العلوم کو بہ فضلِ خداوندی حاصل ہے ، علم و عرفان کا سنگم ہونے کی تائید خداوندی تاسیس و افتتاح کے روزِ اول سے ہی اشرف العلوم کو حاصل ہے ، امتِ مسلمہ کی مائیں جو کہ پہلی تربیت گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اشرف العلوم نے کئی جگہوں پر مکتبِ نسواں کا نظام جاری کر رکھا ہے ، اسی طرح قرب و جوار میں دعوتِ دین کے لیے روزِ اول سے ہی اساتذہ کرام لوگوں کی دینی رہنمائی کے لیے موقع بہ موقع اسفار کرتے ہیں ، طلبہ کی ذہنی تربیت و نشو نما کے لیے مشفق اساتذہ کرام کی مربیانہ نگرانی میں وسیع پیمانے پر تربیتی نظام قائم ہے ۔

تاسیسِ اشرف العلوم

جناب منشی لیاقت حسین صاحب ؒ بیرگیا ، جناب صاحب فضل عرف سبجل گماشتہ ؒ شمسی ، جناب محمد علیؒ ادھیکاری شمسی ، اور کنہوں شمسی کے دیگر بڑے چھوٹے احباب نے حضرت مولانا عبد لعزیز ؒ کی اس مبارک تحریک کو کامیاب بنانے میں ابتدائی طور پر واعظ الدین گماشتہ کا ساتھ اور جانی و مالی ہر طرح کا تعاون پیش کیا ۔ حضرت مولانا اسحٰق صاحب ؒ جو سبجل گماشتہ کے صاحبزادہ تھے ،کا اشرف العلوم کی تعمیر و ترقی میں بڑا ہاتھ ہے ، بعض نامساعد حالات کی بنا پر اشرف العلوم کو بند کرنے کی بات آئی ؛ مگر انہوں نے بلا معاوضہ تا عمر تدریسی خدمت انجام دینا طے کیا اورعلم و عرفان کے چشمے کے سوتے کو بند نہیں ہونے دیا ، اسی طرح حافظ محمد یاسین ،حضرتمولانا محمد داؤد صاحبؒ ، حضت مولانا محمود عالم صاحبؒ کنہواں ،حاجی ایزد بخش صاحب ؒ اکڈنڈی (Ekdandi) ، حافظمحمد اسماعیل صاحب ؒ کنہواں ، دفعدار عبد الجلیل صاحب ؒ پرسا  وغیرہ کی خدمات تاریخ اشرف العلوم میں نا قابل فراموش ہیں

Comments