تعویذ کا شرعی حکم

 

jamiululoom.com

گلے میں تعویذ لٹکانے کا شرعی حکم

سوال :

گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں،  ہمارے یہاں ایک صاحب کا کہنا ہے کہ تعویذ لٹکانا شرک ہے،  جس کے گلے میں تعویذ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا اور اس پر وہ حدیث بھی دکھاتے ہیں

الجواب و باللّه التوفيق :

تعویذ کے بارے میں علی الاطلاق یہ کہنا کہ ناجائز ہے اور دخول جنت سے مانع ہے، درست نہیں ہے.

رہی بات حدیث دکھانے کی  تو پہلے وہ حدیث دیکھنی ہو گی،  ورنہ حدیث کے نام پر غلط باتیں پھیلانا آج کل عام ہے؛  یہ بات واضح رہے کہ جن حدیثوں سے عدم جواز معلوم ہوتا ہے، وہ ساری حدیثیں ان تعویذات کے لیے ہیں، جن میں شرکیہ و کفریہ الفاظ ہوں؛  نہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ دعاؤں پر مشتمل تعویذ کے لیے؛  اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین سے اس طرح کی تعویذات کا پہننا ثابت ہے؛  اس لیے علماء کرام تعویذ اور جھاڑ پھونک سے متعلق یہ اصول بنایا ہے کہ ” وہ جھاڑ پھونک قرآنی آیات اور اسمائے الہیہ وغیرہ کے ذریعہ ہوں،  عربی میں ہوں،  غیر عربی میں ہوں تو غیر معلوم المعنی نہ ہوں،  مؤثر حقیقی اور شافی حقیقی صرف خدا کی ذات ہونے پر کامل اعتماد ہو اور جھاڑ پھونک کو ہی مؤثر بالذات نہ سمجھا جاتا ہو

و قد أجمع العلماء على جواز الرقية عند اجتماع ثلاثة شروط: أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسماء و صفاته،  و باللسان العربي،  أو بما يعرف معناه من غيره و أن يعتقد أن الرقية لا تؤثر   – فتح الباري –

عن عمر بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إذا فزع أحدكم في النوم فليقل “أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه و عقابه و شر عباده و من همزات الشياطين و أن يحضرون”  فإنها لن تضره،  قال فكان عبد الله بن عمرو يعلمها من بلغ من ولده،  و من لم يبلغ منهم، كتبها في صك ثم علقها في عنقه،

الترمذي  : رقم الحدیث : 3528 آ وأحمد في مسنده،  قال المحدث أحمد شاكر إسناده صحيح

وقد قال ابن باز : مايعلق من الآيات القرآنية و الأدعية النبوية و أشباه ذلك من الدعوات الطيبة فهذا النوع اختلف فيه العلماء، فبعضهم أجازه و قال إنه من جنس الرقية الجائزة… (من فتاوى ورسائل سماحة الشيخ ابن باز_ مسائل في العقيدة و ما يلحق بها،  نقلاً عن فتاوى المرأة المسلمة  أبو محمد أشرف بن عبد المقصود  الجزأ الأول   ص: 163)

واضح ہو کہ جن دیگر لوگوں نے ناجائز کہا ہے انہوں نے دلیل دی ہے کہ مطلقاً تعویذلٹکانے سے احادیث میں روکا گیا ہے؛  جب کہ ترمذی شریف کی حدیث نے اس بات کی وضاحت کر دی کہ مطلقاً ممنوع نہیں ہے، ممکن ہے مانعین کے سامنے یہ حدیث نہ ہو؛ اس لیے بغیر وضاحت اور فرق کے تعویذ لٹکانے کو شرک کہ دینا جہالت کی بات ہے؛ اور بیجا تشدد اور غلو ہے،  قرآن شریف میں ہے “لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ الله….  اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں ؟ 




Comments